EN हिंदी
فیضی شیاری | شیح شیری

فیضی شیر

6 شیر

جانے میں کون تھا لوگوں سے بھری دنیا میں
میری تنہائی نے شیشے میں اتارا ہے مجھے

فیضی




کسے ڈھونڈتا ہوں میں اپنے قرب و جوار میں
اے فراق صحبت دوستاں مجھے کیا ہوا

فیضی




میں صبح خواب سے جاگا تو یہ خیال آیا
جو رات میرے برابر تھا کیا ہوا اس کا

فیضی




پڑ گیا ہے خدا سے کام مجھے
اور خدا کا کوئی پتہ ہی نہیں

فیضی




سوچتا کیا ہوں ترے بارے میں چلتے چلتے
تو ذرا پوچھنا یہ بات ٹھہر کر مجھ سے

فیضی




ظلم کرتا ہوں ظلم سہتا ہوں
میں کبھی چین سے رہا ہی نہیں

فیضی