جانتا ہوں کہ کئی لوگ ہیں بہتر مجھ سے
پھر بھی خواہش ہے کہ دیکھو کبھی مل کر مجھ سے
سوچتا کیا ہوں ترے بارے میں چلتے چلتے
تو ذرا پوچھنا یہ بات ٹھہر کر مجھ سے
میں یہی سوچ کے ہر حال میں خوش رہتا ہوں
روٹھ جائے نہ کہیں میرا مقدر مجھ سے
مجھ پہ مت چھوڑ کہ پھر بعد میں پچھتائے گا
فیصلے ٹھیک ہی ہو جاتے ہیں اکثر مجھ سے
رات وہ خون رلاتی ہے اداسی دل کی
رونے لگتا ہے لپٹ کر مرا بستر مجھ سے
عہد آغاز محبت ترے انجام کی خیر
اب اٹھائے نہیں اٹھتا ہے یہ پتھر مجھ سے
غزل
جانتا ہوں کہ کئی لوگ ہیں بہتر مجھ سے
فیضی