EN हिंदी
کوئی نام ہے نہ کوئی نشاں مجھے کیا ہوا | شیح شیری
koi nam hai na koi nishan mujhe kya hua

غزل

کوئی نام ہے نہ کوئی نشاں مجھے کیا ہوا

فیضی

;

کوئی نام ہے نہ کوئی نشاں مجھے کیا ہوا
میں بکھر گیا ہوں کہاں کہاں مجھے کیا ہوا

کسے ڈھونڈتا ہوں میں اپنے قرب و جوار میں
اے فراق صحبت دوستاں مجھے کیا ہوا

یہ کہاں پڑا ہوں زمیں کے گرد و غبار میں
وہ کہاں گیا مرا آسماں مجھے کیا ہوا

کوئی رات تھی کوئی چاند تھا کئی لوگ تھے
وہ عجب سماں تھا مگر وہاں مجھے کیا ہوا

مرے روبرو مجھے میں دکھائی نہیں دیا
مرے آئینے مرے راز داں مجھے کیا ہوا