رات گہری ہے مگر ایک سہارا ہے مجھے
یہ مری آنکھ کا آنسو ہی ستارا ہے مجھے
میں کسی دھیان میں بیٹھا ہوں مجھے کیا معلوم
ایک آہٹ نے کئی بار پکارا ہے مجھے
آنکھ سے گرد ہٹاتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں
اپنے بکھرے ہوئے ملبے کا نظارا ہے مجھے
اے مرے لاڈلے اے ناز کے پالے ہوئے دل
تو نے کس کوئے ملامت سے گزارا ہے مجھے
میں تو اب جیسے بھی گزرے گی گزاروں گا یہاں
تم کہاں جاؤ گے دھڑکا تو تمہارا ہے مجھے
تو نے کیا کھول کے رکھ دی ہے لپیٹی ہوئی عمر
تو نے کن آخری لمحوں میں پکارا ہے مجھے
میں کہاں جاتا تھا اس بزم نظر بازاں میں
لیکن اب کے ترے ابرو کا اشارا ہے مجھے
جانے میں کون تھا لوگوں سے بھری دنیا میں
میری تنہائی نے شیشے میں اتارا ہے مجھے
غزل
رات گہری ہے مگر ایک سہارا ہے مجھے
فیضی