اس لیے دل برا کیا ہی نہیں
زندگی میرا فیصلہ ہی نہیں
اس قدر شور تھا مرے سر میں
اپنی آواز پر رکا ہی نہیں
بڑی خواہش تھی مجھ کو ہونے کی
ہو گیا ہوں تو کچھ ہوا ہی نہیں
ظلم کرتا ہوں ظلم سہتا ہوں
میں کبھی چین سے رہا ہی نہیں
پڑ گیا ہے خدا سے کام مجھے
اور خدا کا کوئی پتہ ہی نہیں
توڑ ڈالو یہ ہاتھ پاؤں مرے
جسم کا تو مقابلہ ہی نہیں
تم کہاں ہو ذرا صدا تو دو
اس سے آگے تو راستہ ہی نہیں
غزل
اس لیے دل برا کیا ہی نہیں
فیضی