آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج
عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے
احسان دانش
اور کچھ دیر ستارو ٹھہرو
اس کا وعدہ ہے ضرور آئے گا
احسان دانش
بجز اس کے احسانؔ کو کیا سمجھئے
بہاروں میں کھویا ہوا اک شرابی
احسان دانش
بلا سے کچھ ہو ہم احسانؔ اپنی خو نہ چھوڑیں گے
ہمیشہ بے وفاؤں سے ملیں گے باوفا ہو کر
احسان دانش
دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن
اس آگ کو نہ ترا پیرہن چھپائے گا
احسان دانش
دل کی شگفتگی کے ساتھ راحت مے کدہ گئی
فرصت مے کشی تو ہے حسرت مے کشی نہیں
احسان دانش
احسانؔ ایسا تلخ جواب وفا ملا
ہم اس کے بعد پھر کوئی ارماں نہ کر سکے
I, to my troth, such a bitter response did obtain
after that I could never hope to hope again
احسان دانش
احسانؔ اپنا کوئی برے وقت کا نہیں
احباب بے وفا ہیں خدا بے نیاز ہے
احسان دانش
فسون شعر سے ہم اس مہ گریزاں کو
خلاؤں سے سر کاغذ اتار لائے ہیں
احسان دانش