EN हिंदी
رہے جو زندگی میں زندگی کا آسرا ہو کر | شیح شیری
rahe jo zindagi mein zindagi ka aasra ho kar

غزل

رہے جو زندگی میں زندگی کا آسرا ہو کر

احسان دانش

;

رہے جو زندگی میں زندگی کا آسرا ہو کر
وہی نکلے سریر آرا قیامت میں خدا ہو کر

حقیقت در حقیقت بتکدے میں ہے نہ کعبہ میں
نگاہ شوق دھوکے دے رہی ہے رہنما ہو کر

مآل کار سے گلشن کی ہر پتی لرزتی ہے
کہ آخر رنگ و بو اڑ جائیں گے اک دن ہوا ہو کر

ابھی کل تک جوانی کے خمستاں تھے نگاہوں میں
یہ دنیا دو ہی دن میں رہ گئی ہے کیا سے کیا ہو کر

مرے سجدوں کی یا رب تشنہ کامی کیوں نہیں جاتی
یہ کیا بے اعتنائی اپنے بندے سے خدا ہو کر

سرشت دل میں کس نے کوٹ کر بھر دی ہے بیتابی
ازل میں کون یا رب مجھ سے بیٹھا تھا خفا ہو کر

یہ پچھلی رات یہ خاموشیاں یہ ڈوبتے تارے
نگاہ شوق بہکی پھر رہی ہے التجا ہو کر

بلا سے کچھ ہو ہم احسانؔ اپنی خو نہ چھوڑیں گے
ہمیشہ بے وفاؤں سے ملیں گے باوفا ہو کر