EN हिंदी
بنا دیں گی دنیا کو اک دن شرابی | شیح شیری
bana dengi duniya ko ek din sharabi

غزل

بنا دیں گی دنیا کو اک دن شرابی

احسان دانش

;

بنا دیں گی دنیا کو اک دن شرابی
یہ بد مست آنکھیں یہ ڈورے گلابی

ہیں قصر محبت کے معمار دونوں
نگاہوں کا دھوکا دلوں کی خرابی

یہ کفر مجسم یہ زہد سراپا
یہ گنجان گیسو یہ روئے کتابی

ہر اک شے میں تم مسکراتے ہو گویا
ہزاروں حجابوں میں یہ بے حجابی

ابھی تک نگاہوں پہ چھائی ہوئی ہے
وہ مستی میں ڈوبی ہوئی نیم خوابی

عبث عشق کو انتظار اثر ہے
اثر تک کہاں آہ کی باریابی

بجز اس کے احسانؔ کو کیا سمجھئے
بہاروں میں کھویا ہوا اک شرابی