جب بھی خلوت میں وہ یاد آئے گا
وقت کا سیل ٹھہر جائے گا
چاند تم دیکھ رہے ہو جس کو
یہ بھی آنسو سا ڈھلک جائے گا
ایک دو موڑ ہی مڑ کر انساں
بام گردوں کی خبر لائے گا
میں نے دیکھے ہیں چمن بے پردہ
کوئی گل کیا مرے منہ آئے گا
حسن سے دور ہی رہنا بہتر
جو ملے گا وہی پچھتائے گا
اور کچھ دیر ستارو ٹھہرو
اس کا وعدہ ہے ضرور آئے گا
ان کی زلفوں کی مہک لے دانشؔ
اس دھندلکے کو کہاں پائے گا
غزل
جب بھی خلوت میں وہ یاد آئے گا
احسان دانش