ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں
شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو
احسان دانش
آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج
عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے
احسان دانش
فسون شعر سے ہم اس مہ گریزاں کو
خلاؤں سے سر کاغذ اتار لائے ہیں
احسان دانش
احسانؔ اپنا کوئی برے وقت کا نہیں
احباب بے وفا ہیں خدا بے نیاز ہے
احسان دانش
احسانؔ ایسا تلخ جواب وفا ملا
ہم اس کے بعد پھر کوئی ارماں نہ کر سکے
I, to my troth, such a bitter response did obtain
after that I could never hope to hope again
احسان دانش
دل کی شگفتگی کے ساتھ راحت مے کدہ گئی
فرصت مے کشی تو ہے حسرت مے کشی نہیں
احسان دانش
دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن
اس آگ کو نہ ترا پیرہن چھپائے گا
احسان دانش
بلا سے کچھ ہو ہم احسانؔ اپنی خو نہ چھوڑیں گے
ہمیشہ بے وفاؤں سے ملیں گے باوفا ہو کر
احسان دانش
بجز اس کے احسانؔ کو کیا سمجھئے
بہاروں میں کھویا ہوا اک شرابی
احسان دانش