آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج
عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے
احسان دانش
ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں
شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو
احسان دانش
ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو
احسان دانش
حسن کو دنیا کی آنکھوں سے نہ دیکھ
اپنی اک طرز نظر ایجاد کر
احسان دانش
کون دیتا ہے محبت کو پرستش کا مقام
تم یہ انصاف سے سوچو تو دعا دو ہم کو
احسان دانش
خاک سے سینکڑوں اگے خورشید
ہے اندھیرا مگر چراغ تلے
احسان دانش
کس کس کی زباں روکنے جاؤں تری خاطر
کس کس کی تباہی میں ترا ہاتھ نہیں ہے
احسان دانش
کسے خبر تھی کہ یہ دور خود غرض اک دن
جنوں سے قیمت دار و رسن چھپائے گا
احسان دانش
کچھ اپنے ساز نفس کی نہ قدر کی تو نے
کہ اس رباب سے بہتر کوئی رباب نہ تھا
احسان دانش