ایسی ہونے لگی تھکن اس کو
دن کے ڈھلتے ہی سو گیا رستہ
بلوان سنگھ آذر
چلوں گا کب تلک تنہا سفر میں
مجھے ملتا نہیں ہے کارواں کیوں
بلوان سنگھ آذر
ہار جائے گی یقیناً تیرگی
گر مسلسل روشنی زندہ رہی
بلوان سنگھ آذر
ہوا کے دوش پر لگتا ہے اڑنے
جو پتہ ٹوٹ جاتا ہے شجر سے
بلوان سنگھ آذر
ختم ہوتا ہی نہیں میرا سفر
کوئی تھک ہار گیا ہے مجھ میں
بلوان سنگھ آذر
کھلا مکان ہے ہر ایک زندگی آذرؔ
ہوا کے ساتھ دریچوں سے خواب آتے ہیں
بلوان سنگھ آذر
کوئی منزل کبھی نہیں آئی
راستے میں تھا راستے میں ہوں
بلوان سنگھ آذر
مار دیتی ہے زندگی ٹھوکر
ذہن جب الٹے پانو چلتا ہے
بلوان سنگھ آذر
پاؤں سے کانٹا نکل جائے اگر
اپنی رفتار بڑھا لوں میں بھی
بلوان سنگھ آذر