مرے سفر میں ہی کیوں یہ عذاب آتے ہیں
جدھر بھی جاؤں ادھر ہی سراب آتے ہیں
تلاش ہے مجھے اب تو انہیں فضاؤں کی
جہاں خزاں میں بھی اکثر گلاب آتے ہیں
کسی کو ملتا نہیں اک چراغ میلوں تک
کسی کی بستی میں سو آفتاب آتے ہیں
نہ نکلا کیجیئے راتوں کو گھر سے آپ کبھی
سڑک پہ رات میں خانہ خراب آتے ہیں
کھلا مکان ہے ہر ایک زندگی آذرؔ
ہوا کے ساتھ دریچوں سے خواب آتے ہیں
غزل
مرے سفر میں ہی کیوں یہ عذاب آتے ہیں
بلوان سنگھ آذر