حادثہ ہوتا رہا ہے مجھ میں
بارہا کوئی مرا ہے مجھ میں
میری مٹی کو پتہ ہے سب کچھ
کون کب کتنا چلا ہے مجھ میں
ختم ہوتا ہی نہیں میرا سفر
کوئی تھک ہار گیا ہے مجھ میں
اپنے اندر میں سمیٹوں کیا کیا
سارا گھر بکھرا پڑا ہے مجھ میں
کشتیاں ڈوب رہی ہیں آذرؔ
ایک طوفان اٹھا ہے مجھ میں
غزل
حادثہ ہوتا رہا ہے مجھ میں
بلوان سنگھ آذر