اہل زر نے دیکھ کر کم ظرفئ اہل قلم
حرص زر کے ہر ترازو میں سخن ور رکھ دیے
بخش لائلپوری
درد ہجرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو کہیں
سایۂ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے
بخش لائلپوری
گھر بھی ویرانہ لگے تازہ ہواؤں کے بغیر
باد خوش رنگ چلے دشت بھی گھر لگتا ہے
بخش لائلپوری
ہمارے خواب چوری ہو گئے ہیں
ہمیں راتوں کو نیند آتی نہیں ہے
بخش لائلپوری
حصول منزل جاں کا ہنر نہیں آیا
وہ روشنی تھی کہ کچھ بھی نظر نہیں آیا
بخش لائلپوری
کبھی آنکھوں پہ کبھی سر پہ بٹھائے رکھنا
زندگی تلخ سہی دل سے لگائے رکھنا
بخش لائلپوری
کوئی شے دل کو بہلاتی نہیں ہے
پریشانی کی رت جاتی نہیں ہے
بخش لائلپوری
وہی پتھر لگا ہے میرے سر پر
ازل سے جس کو سجدے کر رہا ہوں
بخش لائلپوری