حصول منزل جاں کا ہنر نہیں آیا
وہ روشنی تھی کہ کچھ بھی نظر نہیں آیا
بھٹک رہے ہیں ابھی زیست کے سرابوں میں
مسافروں کو شعور سفر نہیں آیا
تمام رات ستارہ شناس روتے رہے
نظر گنوا دی ستارہ نظر نہیں آیا
ہزار منتیں کیں واسطے خدا کے دیے
پہ راہ راست پہ وہ راہ بر نہیں آیا
زبان شعر پہ مہر سکوت ہے اب تک
جلال صوت و سخن رنگ پر نہیں آیا
وہ تک رہے ہیں ازل سے فراز گردوں پر
نظر کسی کو بھی نجم سحر نہیں آیا
ہمارے شہر کے ہر سنگ باز سے یہ کہو
ہماری شاخ شجر پر ثمر نہیں آیا
ہر ایک موڑ پہ ہم نے بہت صدائیں دیں
سفر تمام ہوا ہم سفر نہیں آیا
دیار غیر میں میرا وہ سرپھرا بیٹا
گیا ہے گھر سے تو پھر لوٹ کر نہیں آیا
غزل
حصول منزل جاں کا ہنر نہیں آیا
بخش لائلپوری