سمندر کا تماشہ کر رہا ہوں
میں ساحل بن کے پیاسا مر رہا ہوں
اگرچہ دل میں صحرا کی تپش ہے
مگر میں ڈوبنے سے ڈر رہا ہوں
میں اپنے گھر کی ہر شے کو جلا کر
شبستانوں کو روشن کر رہا ہوں
وہی لائے مجھے دار و رسن پر
میں جن لوگوں کا پیغمبر رہا ہوں
وہی پتھر لگا ہے میرے سر پر
ازل سے جس کو سجدے کر رہا ہوں
تراشے شہر میں نے بخشؔ کیا کیا
مگر خود تا ابد بے گھر رہا ہوں
غزل
سمندر کا تماشہ کر رہا ہوں
بخش لائلپوری