اسلمؔ بڑے وقار سے ڈگری وصول کی
اور اس کے بعد شہر میں خوانچہ لگا لیا
اسلم کولسری
ہماری جیت ہوئی ہے کہ دونوں ہارے ہیں
بچھڑ کے ہم نے کئی رات دن گزارے ہیں
اسلم کولسری
عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے
اسلم کولسری
جانے کس لمحۂ وحشی کی طلب ہے کہ فلک
دیکھنا چاہے مرے شہر کو جنگل کر کے
اسلم کولسری
جب میں اس کے گاؤں سے باہر نکلا تھا
ہر رستے نے میرا رستہ روکا تھا
اسلم کولسری
کانٹے سے بھی نچوڑ لی غیروں نے بوئے گل
یاروں نے بوئے گل سے بھی کانٹا بنا دیا
اسلم کولسری
قریب آ کے بھی اک شخص ہو سکا نہ مرا
یہی ہے میری حقیقت یہی فسانہ مرا
اسلم کولسری
شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
اسلم کولسری
صرف میرے لیے نہیں رہنا
تم مرے بعد بھی حسیں رہنا
اسلم کولسری