ہماری جیت ہوئی ہے کہ دونوں ہارے ہیں
بچھڑ کے ہم نے کئی رات دن گزارے ہیں
ہنوز سینے کی چھوٹی سی قبر خالی ہے
اگرچہ اس میں جنازے کئی اتارے ہیں
وہ کوئلے سے مرا نام لکھ چکا تو اسے
سنا ہے دیکھنے والوں نے پھول مارے ہیں
یہ کس بلا کی زباں آسماں کو چاٹ گئی
کہ چاند ہے نہ کہیں کہکشاں نہ تارے ہیں
مجھے بھی خود سے عداوت ہوئی تو ظاہر ہے
کہ اپنے دوست مجھے زندگی سے پیارے ہیں
نہیں کہ عرصۂ گرداب ہی غنیمت تھا
مگر یقیں تو دلاؤ یہی کنارے ہیں
غلط کہ کوئی شریک سفر نہیں اسلمؔ
سلگتے عکس ہیں جلتے ہوئے اشارے ہیں
غزل
ہماری جیت ہوئی ہے کہ دونوں ہارے ہیں
اسلم کولسری