قریب آ کے بھی اک شخص ہو سکا نہ مرا
یہی ہے میری حقیقت یہی فسانہ مرا
یہ اور بات کہ مجھ کو نہ مل سکا اب تک
ترے جہاں میں کہیں ہے سہی ٹھکانہ مرا
چراغ کہنے لگا پھر ہوا کے جھونکے سے
یہ اہتمام تو اے دوست ہے ترا نہ مرا
سو اب تو بزم تمنا میں طائرانہ چہک!
ترے دماغ پہ ہلکا سا بوجھ تھا نہ مرا؟
ابھی تو گونج رہے ہیں بدن میں شعلے سے
ابھی تو خام ہے انداز عاشقانہ مرا
کہاں مجال کہ مرضی سے پھڑپھڑا بھی سکوں
قفس مثال ہے اسلمؔ یہ آشیانہ مرا
غزل
قریب آ کے بھی اک شخص ہو سکا نہ مرا
اسلم کولسری