EN हिंदी
اسلم عمادی شیاری | شیح شیری

اسلم عمادی شیر

7 شیر

ہم بھی اسلمؔ اسی گمان میں ہیں
ہم نے بھی کوئی زندگی جی تھی

اسلم عمادی




ہوائیں شہر کی آلودۂ کثافت ہیں
یہ صاف ستھرا پن اور یہ نفاستیں جھوٹی

اسلم عمادی




ہزار راستے بدلے ہزار سوانگ رچے
مگر ہے رقص میں سر پر اک آسمان وہی

اسلم عمادی




نمی اتر گئی دھرتی میں تہہ بہ تہہ اسلمؔ
بہار اشک نئی رت کی ابتدا میں ہے

اسلم عمادی




تم مرے کمرے کے اندر جھانکنے آئے ہو کیوں
سو رہا ہوں چین سے ہوں ٹھیک ہے سب ٹھیک ہے

اسلم عمادی




تمہارے درد سے جاگے تو ان کی قدر کھلی
وگرنہ پہلے بھی اپنے تھے جسم و جان وہی

اسلم عمادی




انہیں یہ فکر کہ دل کو کہاں چھپا رکھیں
ہمیں یہ شوق کہ دل کا خسارہ کیونکر ہو

اسلم عمادی