اپنا مکان بھی تھا اسی موڑ پر مگر
جانے میں کس خیال میں اوروں کے گھر گیا
اسلم آزاد
دھوپ کے بادل برس کر جا چکے تھے اور میں
اوڑھ کر شبنم کی چادر چھت پہ سویا رات بھر
اسلم آزاد
دوستوں کے ساتھ دن میں بیٹھ کر ہنستا رہا
اپنے کمرے میں وہ جا کر خوب رویا رات بھر
اسلم آزاد
ہمارے بیچ وہ چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے
میں سوچتا ہوں مگر کچھ مجھے پتا نہ لگے
اسلم آزاد
ہزار بار نگاہوں سے چوم کر دیکھا
لبوں پہ اس کے وہ پہلی سی اب مٹھاس نہیں
اسلم آزاد
کسی طرح نہ طلسم سکوت ٹوٹ سکا
وہ دے رہا تھا بہت دور سے صدا مجھ کو
اسلم آزاد
کوئی دیوار سلامت ہے نہ اب چھت میری
خانۂ خستہ کی صورت ہوئی حالت میری
اسلم آزاد
میں نے اپنی خواہشوں کا قتل خود ہی کر دیا
ہاتھ خون آلود ہیں ان کو ابھی دھویا نہیں
اسلم آزاد
نہ دشت و در سے الگ تھا نہ جنگلوں سے جدا
وہ اپنے شہر میں رہتا تھا پھر بھی تنہا تھا
اسلم آزاد