EN हिंदी
اثر لکھنوی شیاری | شیح شیری

اثر لکھنوی شیر

20 شیر

آہ کس سے کہیں کہ ہم کیا تھے
سب یہی دیکھتے ہیں کیا ہیں ہم

اثر لکھنوی




آج کچھ مہربان ہے صیاد
کیا نشیمن بھی ہو گیا برباد

اثر لکھنوی




آپ کا خط نہیں ملا مجھ کو
دولت دو جہاں ملی مجھ کو

اثر لکھنوی




بہانہ مل نہ جائے بجلیوں کو ٹوٹ پڑنے کا
کلیجہ کانپتا ہے آشیاں کو آشیاں کہتے

اثر لکھنوی




بھولنے والے کو شاید یاد وعدہ آ گیا
مجھ کو دیکھا مسکرایا خود بہ خود شرما گیا

اثر لکھنوی




ادھر سے آج وہ گزرے تو منہ پھیرے ہوئے گزرے
اب ان سے بھی ہماری بے کسی دیکھی نہیں جاتی

اثر لکھنوی




اک بات بھلا پوچھیں کس طرح مناؤ گے
جیسے کوئی روٹھا ہے اور تم کو منانا ہے

اثر لکھنوی




عشق سے لوگ منع کرتے ہیں
جیسے کچھ اختیار ہے اپنا

اثر لکھنوی




جو آپ کہیں اس میں یہ پہلو ہے وہ پہلو
اور ہم جو کہیں بات میں وہ بات نہیں ہے

اثر لکھنوی