ابھی تو میں نے فقط بارشوں کو جھیلا ہے
اب اس کے بعد سمندر بھی دیکھنا ہے مجھے
عارف امام
عجب تھا نشۂ وارفتگیٔ وصل اسے
وہ تازہ دم رہا مجھ کو نڈھال کر کے بھی
عارف امام
اپنے ہی پیروں سے اپنا آپ روند
اپنی ہستی کو مٹا کر رقص کر
عارف امام
بنا رہا ہوں ابھی گھر کو آئنہ خانہ
پھر اپنے ہاتھ میں پتھر بھی دیکھنا ہے مجھے
عارف امام
ایک پردہ ہے بے ثباتی کا
آئنے اور ترے جمال کے بیچ
عارف امام
ہوس نہ جان تجھے چھو کے دیکھنا یہ ہے
تجھے ہی دیکھ رہے ہیں کہ خواب دیکھتے ہیں
عارف امام
اک برس ہو گیا اسے دیکھے
اک صدی آ گئی ہے سال کے بیچ
عارف امام
خون کتنا بہا تھا مقتل میں
میری آنکھوں میں خون اترنے تک
عارف امام
سبو میں عکس رخ ماہتاب دیکھتے ہیں
شراب پیتے نہیں ہم شراب دیکھتے ہیں
عارف امام