اس گلی سے مرے گزرنے تک
سب تماشا ہے میرے مرنے تک
تو مری جان رقص میں رہیو
گردش کن فکاں ٹھہرنے تک
وسوسوں سے بھرا ہوا تھا دل
اس کی چوکھٹ پہ سر کو دھرنے تک
کتنے صحرا اتر گئے مجھ میں
اک سبو آرزو کا بھرنے تک
کتنے عالم گزر گئے مجھ پر
رقص کرنے سے سجدہ کرنے تک
خون کتنا بہا تھا مقتل میں
میری آنکھوں میں خون اترنے تک
غزل
اس گلی سے مرے گزرنے تک
عارف امام