EN हिंदी
سب لہو جم گیا ابال کے بیچ | شیح شیری
sab lahu jam gaya ubaal ke bich

غزل

سب لہو جم گیا ابال کے بیچ

عارف امام

;

سب لہو جم گیا ابال کے بیچ
کون یاد آ گیا وصال کے بیچ

ایک وقفہ ہے زندگی بھر کا
زخم کے اور اندمال کے بیچ

آن بیٹھا ہے ایک اندیشہ
گفتگو اور عرض حال کے بیچ

تال دیتی ہے جب کبھی وحشت
رقص کرتا ہوں میں خیال کے بیچ

کبھی ماتم میان رقص کیا
کبھی سجدہ کیا دھمال کے بیچ

ایک پردہ ہے بے ثباتی کا
آئینے اور ترے جمال کے بیچ

اک برس ہو گیا اسے دیکھے
اک صدی آ گئی ہے سال کے بیچ

میرے دامن کو دھونے والا ہے
ایک آنسو جو ہے رومال کے بیچ