سب لہو جم گیا ابال کے بیچ
کون یاد آ گیا وصال کے بیچ
ایک وقفہ ہے زندگی بھر کا
زخم کے اور اندمال کے بیچ
آن بیٹھا ہے ایک اندیشہ
گفتگو اور عرض حال کے بیچ
تال دیتی ہے جب کبھی وحشت
رقص کرتا ہوں میں خیال کے بیچ
کبھی ماتم میان رقص کیا
کبھی سجدہ کیا دھمال کے بیچ
ایک پردہ ہے بے ثباتی کا
آئینے اور ترے جمال کے بیچ
اک برس ہو گیا اسے دیکھے
اک صدی آ گئی ہے سال کے بیچ
میرے دامن کو دھونے والا ہے
ایک آنسو جو ہے رومال کے بیچ
غزل
سب لہو جم گیا ابال کے بیچ
عارف امام