EN हिंदी
انجم صدیقی شیاری | شیح شیری

انجم صدیقی شیر

6 شیر

آرزو کی یہ سزا ہے کہ زمانہ ہے خلاف
ان سے ملنے کی خدا جانے سزا کیا ہوگی

انجم صدیقی




دماغ ان کے تجسس میں جسم گھر میں رہا
میں اپنے گھر ہی میں رہتے ہوئے سفر میں رہا

انجم صدیقی




فصل گل آ گئی ہے اہل جنوں
پھر گریباں کو تار تار کریں

انجم صدیقی




ہجر کی لذتوں کا کیا کہنا
وہ نہ آئیں مری دعا ہے یہ

انجم صدیقی




اک تبسم ہزارہا آنسو
ابتدا وہ تھی انتہا ہے یہ

انجم صدیقی




مری تنہائی کا عالم نہ پوچھو
خیال دوستاں ہے اور میں ہوں

انجم صدیقی