ہماری زندگی کیا ہے محبت ہی محبت ہے
تمہارا بھی یہی دستور بن جائے تو اچھا ہو
علی ظہیر لکھنوی
کان سنتے تو ہیں لیکن نہ سمجھنے کے لئے
کوئی سمجھا بھی تو مفہوم نیا مانگے ہے
علی ظہیر لکھنوی
مرا خون جگر پر نور بن جائے تو اچھا ہو
تمہاری مانگ کا سیندور بن جانے تو اچھا ہو
علی ظہیر لکھنوی
نفرت سے محبت کو سہارے بھی ملے ہیں
طوفان کے دامن میں کنارے بھی ملے ہیں
علی ظہیر لکھنوی
راز غم الفت کو یہ دنیا نہ سمجھ لے
آنسو مرے دامن میں تمہارے بھی ملے ہیں
علی ظہیر لکھنوی
وہ تو تھا آدمی کی طرح ظہیرؔ
اس کا چہرہ فرشتوں جیسا تھا
علی ظہیر لکھنوی
ذرا پردہ ہٹا دو سامنے سے بجلیاں چمکیں
مرا دل جلوہ گاہ طور بن جائے تو اچھا ہو
علی ظہیر لکھنوی