EN हिंदी
درد ہر رنگ سے اطوار دعا مانگے ہے | شیح شیری
dard har rang se atwar-e-dua mange hai

غزل

درد ہر رنگ سے اطوار دعا مانگے ہے

علی ظہیر لکھنوی

;

درد ہر رنگ سے اطوار دعا مانگے ہے
لحظہ لحظہ مرے زخموں کا پتا مانگے ہے

اتنی آنکھیں ہیں مگر دیکھتی کیا رہتی ہیں
یہ تماشا تو خدا جانیے کیا مانگے ہے

سب تو ہشیار ہوئے تم بھی سیانے بن جاؤ
دیکھو ہر شخص وفاؤں کا صلہ مانگے ہے

کان سنتے تو ہیں لیکن نہ سمجھنے کے لئے
کوئی سمجھا بھی تو مفہوم نیا مانگے ہے