درد ہر رنگ سے اطوار دعا مانگے ہے
لحظہ لحظہ مرے زخموں کا پتا مانگے ہے
اتنی آنکھیں ہیں مگر دیکھتی کیا رہتی ہیں
یہ تماشا تو خدا جانیے کیا مانگے ہے
سب تو ہشیار ہوئے تم بھی سیانے بن جاؤ
دیکھو ہر شخص وفاؤں کا صلہ مانگے ہے
کان سنتے تو ہیں لیکن نہ سمجھنے کے لئے
کوئی سمجھا بھی تو مفہوم نیا مانگے ہے
غزل
درد ہر رنگ سے اطوار دعا مانگے ہے
علی ظہیر لکھنوی