EN हिंदी
یاد رفتگان شیاری | شیح شیری

یاد رفتگان

22 شیر

وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے

ناصر کاظمی




زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے

ناصر کاظمی




اداس شام کی یادوں بھری سلگتی ہوا
ہمیں پھر آج پرانے دیار لے آئی

راجیندر منچندا بانی




وہ جن کے نقش قدم دیکھنے میں آتے ہیں
اب ایسے لوگ تو کم دیکھنے میں آتے ہیں

سلیم کوثر




وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

محمد رفیع سودا




بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے

شہریار




اس دکھ میں ہائے یار یگانے کدھر گئے
سب چھوڑ ہم کو غم میں نہ جانے کدھر گئے

شیخ ظہور الدین حاتم