بیچ جنگل میں پہنچ کے کتنی حیرانی ہوئی
اک صدا آئی اچانک جانی پہچانی ہوئی
پھر وہی چھت پر اکیلے ہم وہی ٹھنڈی ہوا
کتنے اندیشے بڑھے جب رات طوفانی ہوئی
ہو گئی دور ان گنت ویراں گزر گاہوں کی کوفت
ایک بستی سے گزرنے میں وہ آسانی ہوئی
اس نے بارش میں بھی کھڑکی کھول کے دیکھا نہیں
بھیگنے والوں کو کل کیا کیا پریشانی ہوئی
گرد رہ کے بیٹھتے ہی دیکھتا کیا ہوں جمالؔ
جانی پہچانی ہوئی ہر شکل انجانی ہوئی
غزل
بیچ جنگل میں پہنچ کے کتنی حیرانی ہوئی
جمال احسانی