EN हिंदी
بیچ جنگل میں پہنچ کے کتنی حیرانی ہوئی | شیح شیری
bich jangal mein pahunch ke kitni hairani hui

غزل

بیچ جنگل میں پہنچ کے کتنی حیرانی ہوئی

جمال احسانی

;

بیچ جنگل میں پہنچ کے کتنی حیرانی ہوئی
اک صدا آئی اچانک جانی پہچانی ہوئی

پھر وہی چھت پر اکیلے ہم وہی ٹھنڈی ہوا
کتنے اندیشے بڑھے جب رات طوفانی ہوئی

ہو گئی دور ان گنت ویراں گزر گاہوں کی کوفت
ایک بستی سے گزرنے میں وہ آسانی ہوئی

اس نے بارش میں بھی کھڑکی کھول کے دیکھا نہیں
بھیگنے والوں کو کل کیا کیا پریشانی ہوئی

گرد رہ کے بیٹھتے ہی دیکھتا کیا ہوں جمالؔ
جانی پہچانی ہوئی ہر شکل انجانی ہوئی