مری صبح غم بلا سے کبھی شام تک نہ پہنچے
مجھے ڈر یہ ہے برائی ترے نام تک نہ پہنچے
مرے پاس کیا وہ آتے مرا درد کیا مٹاتے
مرا حال دیکھنے کو لب بام تک نہ پہنچے
ہو کسی کا مجھ پہ احساں یہ نہیں پسند مجھ کو
تری صبح کی تجلی مری شام تک نہ پہنچے
تری بے رخی پہ ظالم مرا جی یہ چاہتا ہے
کہ وفا کا میرے لب پر کبھی نام تک نہ پہنچے
میں فغان بے اثر کا کبھی معترف نہیں ہوں
وہ صدا ہی کیا جو ان کے در و بام تک نہ پہنچے
وہ صنم بگڑ کے مجھ سے مرا کیا بگاڑ لے گا
کبھی راز کھول دوں میں تو سلام تک نہ پہنچے
مجھے لذت اسیری کا سبق پڑھا رہے ہیں
جو نکل کے آشیاں سے کبھی دام تک نہ پہنچے
انہیں مہرباں سمجھ لیں مجھے کیا غرض پڑی ہے
وہ کرم کا ہاتھ ہی کیا جو عوام تک نہ پہنچے
ہوئے فیض مے کدہ سے سبھی فیضیاب لیکن
جو غریب تشنہ لب تھے وہی جام تک نہ پہنچے
جسے میں نے جگمگایا اسی انجمن میں ساقی
مرا ذکر تک نہ آئے مرا نام تک نہ پہنچے
تمہیں یاد ہی نہ آؤں یہ ہے اور بات ورنہ
میں نہیں ہوں دور اتنا کہ سلام تک نہ پہنچے
غزل
مری صبح غم بلا سے کبھی شام تک نہ پہنچے
کلیم عاجز