اجالا دشت جنوں میں بڑھانا پڑتا ہے
کبھی کبھی ہمیں خیمہ جلانا پڑتا ہے
یہ مسخروں کو وظیفے یوں ہی نہیں ملتے
رئیس خود نہیں ہنستے ہنسانا پڑتا ہے
بڑی عجیب یہ مجبوریاں سماج کی ہیں
منافقوں سے تعلق نبھانا پڑتا ہے
علاوہ راہ قلندر تمام دنیا میں
کسی بھی راہ سے گزرو زمانہ پڑتا ہے
شکستگی میں بھی کیا شان ہے عمارت کی
کہ دیکھنے کو اسے سر اٹھانا پڑتا ہے
کسی کے عیب چھپانا ثواب ہے لیکن
کبھی کبھی کوئی پردہ اٹھانا پڑتا ہے
غزل کا شعر تو ہوتا ہے بس کسی کے لیے
مگر ستم ہے کہ سب کو سنانا پڑتا ہے
غزل
اجالا دشت جنوں میں بڑھانا پڑتا ہے
اظہر عنایتی