EN हिंदी
سفار شیاری | شیح شیری

سفار

26 شیر

چلے تھے جس کی طرف وہ نشان ختم ہوا
سفر ادھورا رہا آسمان ختم ہوا

غلام مرتضی راہی




زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا

گلزار




سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

حیدر علی آتش




آئے ٹھہرے اور روانہ ہو گئے
زندگی کیا ہے، سفر کی بات ہے

حیدر علی جعفری




ڈر ہم کو بھی لگتا ہے رستے کے سناٹے سے
لیکن ایک سفر پر اے دل اب جانا تو ہوگا

جاوید اختر




میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

مجروح سلطانپوری




سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو

ندا فاضلی