EN हिंदी
سفار شیاری | شیح شیری

سفار

26 شیر

اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی
ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی

راہی معصوم رضا




ابھی سے شکوۂ پست و بلند ہم سفرو
ابھی تو راہ بہت صاف ہے ابھی کیا ہے

رئیس امروہوی




مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا
یہ حادثہ تھا کہ میں عمر بھر سفر میں رہا

ساقی فاروقی




ہے کوئی جو بتائے شب کے مسافروں کو
کتنا سفر ہوا ہے کتنا سفر رہا ہے

شہریار




رہ طلب میں کسے آرزوئے منزل ہے
شعور ہو تو سفر خود سفر کا حاصل ہے

غلام ربانی تاباںؔ