غرق کر دے تجھ کو زاہد تیری دنیا کو خراب
کم سے کم اتنی تو ہر میکش کے پیمانے میں ہے
جگر مراد آبادی
پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب
کوئی پلا رہا ہے پئے جا رہا ہوں میں
جگر مراد آبادی
سب کو مارا جگرؔ کے شعروں نے
اور جگرؔ کو شراب نے مارا
جگر مراد آبادی
اٹھا صراحی یہ شیشہ وہ جام لے ساقی
پھر اس کے بعد خدا کا بھی نام لے ساقی
کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
کچھ بھی بچا نہ کہنے کو ہر بات ہو گئی
آؤ کہیں شراب پئیں رات ہو گئی
ندا فاضلی
اتنی پی ہے کہ بعد توبہ بھی
بے پیے بے خودی سی رہتی ہے
ریاضؔ خیرآبادی
بے پئے ہی شراب سے نفرت
یہ جہالت نہیں تو پھر کیا ہے
without drinking, to abhor wine so
what is this if not igorant stupidity
ساحر لدھیانوی