EN हिंदी
کتاب شیاری | شیح شیری

کتاب

24 شیر

فلسفے سارے کتابوں میں الجھ کر رہ گئے
درس گاہوں میں نصابوں کی تھکن باقی رہی

نصیر احمد ناصر




بھلا دیں ہم نے کتابیں کہ اس پری رو کے
کتابی چہرے کے آگے کتاب ہے کیا چیز

نظیر اکبرآبادی




سب کتابوں کے کھل گئے معنی
جب سے دیکھی نظیرؔ دل کی کتاب

نظیر اکبرآبادی




کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو

نظیر باقری




دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو

ندا فاضلی




مضمون سوجھتے ہیں ہزاروں نئے نئے
قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے

نظام رامپوری




چھپی ہے ان گنت چنگاریاں لفظوں کے دامن میں
ذرا پڑھنا غزل کی یہ کتاب آہستہ آہستہ

پریم بھنڈاری