EN हिंदी
خفا شیاری | شیح شیری

خفا

23 شیر

یہی حالات ابتدا سے رہے
لوگ ہم سے خفا خفا سے رہے

جاوید اختر




یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے
کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے

جگر مراد آبادی




میں اپنے آپ سے ہر دم خفا رہتا ہوں یوں آزرؔ
پرانی دشمنی ہو جس طرح دو خاندانوں میں

کفیل آزر امروہوی




مل بھی جاؤ یوں ہی تم بہر خدا آپ سے آپ
جس طرح ہو گئے ہو ہم سے خفا آپ سے آپ

لالہ مادھو رام جوہر




لائی ہے کہاں مجھ کو طبیعت کی دو رنگی
دنیا کا طلب گار بھی دنیا سے خفا بھی

مدحت الاختر




یا خفا ہوتے تھے ہم تو منتیں کرتے تھے آپ
یا خفا ہیں ہم سے وہ اور ہم منا سکتے نہیں

مرزا محمد تقی ہوسؔ




خدا سے لوگ بھی خائف کبھی تھے
مگر لوگوں سے اب خائف خدا ہے

نریش کمار شاد