سکوں تھوڑا سا پایا دھوپ کے ٹھنڈے مکانوں میں
بہت جلنے لگا تھا جسم برفیلی چٹانوں میں
کب آؤ گے یہ گھر نے مجھ سے چلتے وقت پوچھا تھا
یہی آواز اب تک گونجتی ہے میرے کانوں میں
جنازہ میری تنہائی کا لے کر لوگ جب نکلے
میں خود شامل تھا اپنی زندگی کے نوحہ خوانوں میں
مری محرومیاں جب پتھروں کے شہر سے گزریں
چھپایا سر تری یادوں کے ٹوٹے سائبانوں میں
مجھے میری انا کے خنجروں نے قتل کر ڈالا
بہانہ یہ بھی اک بے چارگی کا تھا بہانوں میں
تماشہ ہم بھی اپنی بے بسی کا دیکھ لیتے ہیں
تری یادوں کے پھولوں کو سجا کر پھول دانوں میں
زمیں پیروں کے چھالے روز چن لیتی ہے پلکوں سے
تخیل روز لے اڑتا ہے مجھ کو آسمانوں میں
میں اپنے آپ سے ہر دم خفا رہتا ہوں یوں آزرؔ
پرانی دشمنی ہو جس طرح دو خاندانوں میں
غزل
سکوں تھوڑا سا پایا دھوپ کے ٹھنڈے مکانوں میں
کفیل آزر امروہوی