پھر اس دنیا سے امید وفا ہے
تجھے اے زندگی کیا ہو گیا ہے
بڑی ظالم نہایت بے وفا ہے
یہ دنیا پھر بھی کتنی خوشنما ہے
کوئی دیکھے تو بزم زندگی میں
اجالوں نے اندھیرا کر دیا ہے
خدا سے لوگ بھی خائف کبھی تھے
مگر لوگوں سے اب خائف خدا ہے
مزے پوچھو کچھ اس سے زندگی کے
حوادث میں جسے جینا پڑا ہے
مرے پہلو میں دل ہے تو یقیناً
ازل ہی سے مگر ٹوٹا ہوا ہے
زبان و فن سے میں واقف نہیں ہوں
مگر وجدان میرا رہنما ہے
مرے نقاد میری شاعری تو
مرے ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے
کہاں ہوں شادؔ میں تو شاد سا ہوں
وہ شاد خوش نوا تو مر چکا ہے
غزل
پھر اس دنیا سے امید وفا ہے
نریش کمار شاد