EN हिंदी
نہ منزلیں تھیں نہ کچھ دل میں تھا نہ سر میں تھا | شیح شیری
na manzilen thin na kuchh dil mein tha na sar mein tha

غزل

نہ منزلیں تھیں نہ کچھ دل میں تھا نہ سر میں تھا

راجیندر منچندا بانی

;

نہ منزلیں تھیں نہ کچھ دل میں تھا نہ سر میں تھا
عجب نظارۂ لا سمتیت نظر میں تھا

عتاب تھا کسی لمحے کا اک زمانے پر
کسی کو چین نہ باہر تھا اور نہ گھر میں تھا

چھپا کے لے گیا دنیا سے اپنے دل کے گھاؤ
کہ ایک شخص بہت طاق اس ہنر میں تھا

کسی کے لوٹنے کی جب صدا سنی تو کھلا
کہ میرے ساتھ کوئی اور بھی سفر میں تھا

کبھی میں آب کے تعمیر کردہ قصر میں ہوں
کبھی ہوا میں بنائے ہوئے سے گھر میں تھا

جھجک رہا تھا وہ کہنے سے کوئی بات ایسی
میں چپ کھڑا تھا کہ سب کچھ مری نظر میں تھا

یہی سمجھ کے اسے خود صدا نہ دی میں نے
وہ تیز گام کسی دور کے سفر میں تھا

کبھی ہوں تیری خموشی کے کٹتے ساحل پر
کبھی میں لوٹتی آواز کے بھنور میں تھا

ہماری آنکھ میں آ کر بنا اک اشک وہ رنگ
جو برگ سبز کے اندر نہ شاخ تر میں تھا

کوئی بھی گھر میں سمجھتا نہ تھا مرے دکھ سکھ
ایک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں تھا

ابھی نہ برسے تھے بانیؔ گھرے ہوئے بادل
میں اڑتی خاک کی مانند رہ گزر میں تھا