EN हिंदी
وہ لوگ جو زندہ ہیں وہ مر جائیں گے اک دن | شیح شیری
wo log jo zinda hain wo mar jaenge ek din

غزل

وہ لوگ جو زندہ ہیں وہ مر جائیں گے اک دن

ساقی فاروقی

;

وہ لوگ جو زندہ ہیں وہ مر جائیں گے اک دن
اک رات کے راہی ہیں گزر جائیں گے اک دن

یوں دل میں اٹھی لہر یوں آنکھوں میں بھرے رنگ
جیسے مرے حالات سنور جائیں گے اک دن

دل آج بھی جلتا ہے اسی تیز ہوا میں
اے تیز ہوا دیکھ بکھر جائیں گے اک دن

یوں ہے کہ تعاقب میں ہے آسائش دنیا
یوں ہے کہ محبت سے مکر جائیں گے اک دن

یوں ہوگا کہ ان آنکھوں سے آنسو نہ بہیں گے
یہ چاند ستارے بھی ٹھہر جائیں گے اک دن

اب گھر بھی نہیں گھر کی تمنا بھی نہیں ہے
مدت ہوئی سوچا تھا کہ گھر جائیں گے اک دن