EN हिंदी
معصوم خواہشوں کی پشیمانیوں میں تھا | شیح شیری
masum KHwahishon ki pashimaniyon mein tha

غزل

معصوم خواہشوں کی پشیمانیوں میں تھا

ریاض مجید

;

معصوم خواہشوں کی پشیمانیوں میں تھا
جینے کا لطف تو انہیں نادانیوں میں تھا

آنکھیں بچھاتے ہر کس و ناکس کی راہ میں
یوں جذبۂ خلوص فراوانیوں میں تھا

ندی میں پہروں جھانکتے رہتے تھے پل سے ہم
کیا بھید تھا جو بہتے ہوئے پانیوں میں تھا

پتھر بنے کھڑے تھے تجسس کے دشت میں
دل گم طلسم شوق کی حیرانیوں میں تھا

یوں رینگ رینگ کر نہ گزرتے تھے روز و شب
دریائے زیست بھی کبھی جولانیوں میں تھا

سنجیدگی کی گہری لکیروں میں ڈھل گیا
معصومیت کا نور جو پیشانیوں میں تھا

اک گھر بنا کے کتنے جھمیلوں میں پھنس گئے
کتنا سکون بے سر و سامانیوں میں تھا

دن آرزو کے یوں ہی اداسی میں کٹ گئے
وہ اپنے دکھ میں اپنی پریشانیوں میں تھا

اس کے لیے بھی زندگی پل پل عذاب تھی
وہ بھی سلگتے وقت کے زندانیوں میں تھا

وہ ضبط و اعتدال و توازن کہاں ریاضؔ
معیار فن کہ جو کبھی یونانیوں میں تھا