EN हिंदी
الوداع شیاری | شیح شیری

الوداع

30 شیر

تم سنو یا نہ سنو ہاتھ بڑھاؤ نہ بڑھاؤ
ڈوبتے ڈوبتے اک بار پکاریں گے تمہیں

عرفانؔ صدیقی




اب تم کبھی نہ آؤ گے یعنی کبھی کبھی
رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر

جون ایلیا




اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

جون ایلیا




جانے والے جا خدا حافظ مگر یہ سوچ لے
کچھ سے کچھ ہو جائے گی دیوانگی تیرے بغیر

منظر لکھنوی




اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

میر تقی میر




اس سے ملے زمانہ ہوا لیکن آج بھی
دل سے دعا نکلتی ہے خوش ہو جہاں بھی ہو

محمد علوی




اس سے ملنے کی خوشی بعد میں دکھ دیتی ہے
جشن کے بعد کا سناٹا بہت کھلتا ہے

معین شاداب