EN हिंदी
الوداع شیاری | شیح شیری

الوداع

30 شیر

لگا جب یوں کہ اکتانے لگا ہے دل اجالوں سے
اسے محفل سے اس کی الوداع کہہ کر نکل آئے

پروندر شوخ




کلیجہ رہ گیا اس وقت پھٹ کر
کہا جب الوداع اس نے پلٹ کر

پون کمار




یہ گھر مرا گلشن ہے گلشن کا خدا حافظ
اللہ نگہبان نشیمن کا خدا حافظ

قتیل شفائی




عجیب ہوتے ہیں آداب رخصت محفل
کہ وہ بھی اٹھ کے گیا جس کا گھر نہ تھا کوئی

سحر انصاری




ایک دن کہنا ہی تھا اک دوسرے کو الوداع
آخرش سالمؔ جدا اک بار تو ہونا ہی تھا

سالم شجاع انصاری




اب مجھ کو رخصت ہونا ہے اب میرا ہار سنگھار کرو
کیوں دیر لگاتی ہو سکھیو جلدی سے مجھے تیار کرو

شبنم شکیل




چھوڑنے میں نہیں جاتا اسے دروازے تک
لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے

شہزاد احمد