EN हिंदी
جاں سے گزرے بھی تو دریا سے گزاریں گے تمہیں | شیح شیری
jaan se guzre bhi to dariya se guzarenge tumhein

غزل

جاں سے گزرے بھی تو دریا سے گزاریں گے تمہیں

عرفانؔ صدیقی

;

جاں سے گزرے بھی تو دریا سے گزاریں گے تمہیں
ساتھ مت چھوڑنا ہم پار اتاریں گے تمہیں

تم سنو یا نہ سنو ہاتھ بڑھاؤ نہ بڑھاؤ
ڈوبتے ڈوبتے اک بار پکاریں گے تمہیں

دل پہ آتا ہی نہیں فصل طرب میں کوئی پھول
جان، اس شاخ شجر پر تو نہ واریں گے تمہیں

کھیل یہ ہے کہ کسے کون سوا چاہتا ہے
جیت جاؤ گے تو جاں نذر گزاریں گے تمہیں

کیسی زیبائی ہے جب سے تمہیں چاہا ہم نے
اور چاہیں گے تمہیں اور سنواریں گے تمہیں

عشق میں ہم کوئی دعویٰ نہیں کرتے لیکن
کم سے کم معرکۂ جاں میں نہ ہاریں گے تمہیں