جاں سے گزرے بھی تو دریا سے گزاریں گے تمہیں
ساتھ مت چھوڑنا ہم پار اتاریں گے تمہیں
تم سنو یا نہ سنو ہاتھ بڑھاؤ نہ بڑھاؤ
ڈوبتے ڈوبتے اک بار پکاریں گے تمہیں
دل پہ آتا ہی نہیں فصل طرب میں کوئی پھول
جان، اس شاخ شجر پر تو نہ واریں گے تمہیں
کھیل یہ ہے کہ کسے کون سوا چاہتا ہے
جیت جاؤ گے تو جاں نذر گزاریں گے تمہیں
کیسی زیبائی ہے جب سے تمہیں چاہا ہم نے
اور چاہیں گے تمہیں اور سنواریں گے تمہیں
عشق میں ہم کوئی دعویٰ نہیں کرتے لیکن
کم سے کم معرکۂ جاں میں نہ ہاریں گے تمہیں
غزل
جاں سے گزرے بھی تو دریا سے گزاریں گے تمہیں
عرفانؔ صدیقی