شمع و گل نے سج تو دی محفل تری تیرے بغیر
وہ رہی اپنی جگہ جو تھی کمی تیرے بغیر
آمد و رفت نفس دشوار تھی تیرے بغیر
ایک نشتر سا چبھا جب سانس لی تیرے بغیر
ہو گئیں تھیں سب بھلی باتیں بری تیرے بغیر
ہاں مگر اچھی ہوئی تو شاعری تیرے بغیر
ہائے دل جس کی امنگیں تھیں بہاریں باغ کی
وہ مری جنت جہنم بن گئی تیرے بغیر
تھا بہت ممکن کہ بچ جاتی غم دنیا سے جان
سچ تو یہ ہے ہم نے کوشش بھی نہ کی تیرے بغیر
مجھ کو رونے سے ملے فرصت تو پھر ڈھونڈوں اسے
ہنس رہا ہے کون قسمت کا دھنی تیرے بغیر
جانے والے جا خدا حافظ مگر یہ سوچ لے
کچھ سے کچھ ہو جائے گی دیوانگی تیرے بغیر
تیرے دیوانے بھی پوجے جائیں گے اک دن یوں ہی
ہو رہی ہے جیسے تیری بندگی تیرے بغیر
تیرا منظرؔ جو کبھی تھا عندلیب خوش نوا
کھو گیا دنیا سے یوں چپ سادھ لی تیرے بغیر
غزل
شمع و گل نے سج تو دی محفل تری تیرے بغیر
منظر لکھنوی