دریا کو کنارے سے کیا دیکھتے رہتے ہو
اندر سے کبھی دیکھو کیسا نظر آتا ہے
انعام ندیمؔ
گاؤں سے گزرے گا اور مٹی کے گھر لے جائے گا
ایک دن دریا سبھی دیوار و در لے جائے گا
جمنا پرشاد راہیؔ
کمال تشنگی ہی سے بجھا لیتے ہیں پیاس اپنی
اسی تپتے ہوئے صحرا کو ہم دریا سمجھتے ہیں
جگر مراد آبادی
ہم کو بھی خوش نما نظر آئی ہے زندگی
جیسے سراب دور سے دریا دکھائی دے
محشر بدایونی
دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی
کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا
from the storms of the seas the ship might well survive
but if the storm is in the ship, no shore can then arrive
ملک زادہ منظور احمد
آج پھر مجھ سے کہا دریا نے
کیا ارادہ ہے بہا لے جاؤں
محمد علوی
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
قتیل شفائی