EN हिंदी
داریا شیاری | شیح شیری

داریا

25 شیر

دریا کو کنارے سے کیا دیکھتے رہتے ہو
اندر سے کبھی دیکھو کیسا نظر آتا ہے

انعام ندیمؔ




گاؤں سے گزرے گا اور مٹی کے گھر لے جائے گا
ایک دن دریا سبھی دیوار و در لے جائے گا

جمنا پرشاد راہیؔ




کمال تشنگی ہی سے بجھا لیتے ہیں پیاس اپنی
اسی تپتے ہوئے صحرا کو ہم دریا سمجھتے ہیں

جگر مراد آبادی




ہم کو بھی خوش نما نظر آئی ہے زندگی
جیسے سراب دور سے دریا دکھائی دے

محشر بدایونی




دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی
کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا

from the storms of the seas the ship might well survive
but if the storm is in the ship, no shore can then arrive

ملک زادہ منظور احمد




آج پھر مجھ سے کہا دریا نے
کیا ارادہ ہے بہا لے جاؤں

محمد علوی




گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

قتیل شفائی