دریاؤں کی نذر ہوئے
دھیرے دھیرے سب تیراک
آشفتہ چنگیزی
ساحل پہ لوگ یوں ہی کھڑے دیکھتے رہے
دریا میں ہم جو اترے تو دریا اتر گیا
عبد اللہ جاوید
کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک
ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر
عدیم ہاشمی
جوکھم اے مردم دیدہ ہے سمجھ کے رونا
ڈوب بھی جاتے ہیں دریا میں نہانے والے
آغا حجو شرف
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
احمد ندیم قاسمی
میں کشتی میں اکیلا تو نہیں ہوں
مرے ہم راہ دریا جا رہا ہے
احمد ندیم قاسمی
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
the river is concerned with the storms in its domain
the ship as well might get across or in the midst remain
الطاف حسین حالی