قلم دل میں ڈبویا جا رہا ہے
نیا منشور لکھا جا رہا ہے
میں کشتی میں اکیلا تو نہیں ہوں
مرے ہم راہ دریا جا رہا ہے
سلامی کو جھکے جاتے ہیں اشجار
ہوا کا ایک جھونکا جا رہا ہے
مسافر ہی مسافر ہر طرف ہیں
مگر ہر شخص تنہا جا رہا ہے
میں اک انساں ہوں یا سارا جہاں ہوں
بگولہ ہے کہ صحرا جا رہا ہے
ندیمؔ اب آمد آمد ہے سحر کی
ستاروں کو بجھایا جا رہا ہے
غزل
قلم دل میں ڈبویا جا رہا ہے
احمد ندیم قاسمی